Orhan

Add To collaction

اک ان چاہا رشتہ

اک ان چاہا رشتہ از سحر نور قسط نمبر1

بعض اوقات ایسے لمحے آتے بھی آتے ہیں کے انسان کو اپنی ذات کا ایک ایک ذرہ چن چن کر اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔ اسکی ذات اس قدر ٹکڑوں میں بٹ گئی ہوتی ہے کے ان کو اکٹھا کرنے میں ہی زندگی بیت جاتی ہے۔ وہ بھی اس لمحے کچھ اسی قسم کی اذیت میں سےگزر رہی تھی۔ اسکا سب سے قیمتی اثاثہ اس کے سامنے موجود تھا مگر وہ اس سے کچھ نہیں کہہ پارہی تھی۔ اس کے الفاظ جیسے گم سے ہوگئے تھے۔ اسکو آنکھوں میں جلن سی محسوس ہونے لگی پر وہ خود پے کمال ضبط کئے ہوے تھی۔ کیوں کے وہ کسی کو عہد دے چکی تھی کے اب وہ کبھی نہیں روئے گی۔ کتنا تکلیف دہ منظر ہوتا ہے نا جب وہی انسان جو آپ کے آنسووں کو آپ کی انکھوں سے نکلنے سے پہلے ہی پونچھ ڈالے آپ کے بے پناہ رونے کی وجہ بن جاے اس لمحے انسان کی تکلیف اور ضبط دونوں ہی انتہا پے پہنچ جاتے ہیں پر افسوس نا آپ رو سکتے ہیں نا آپ ضبط کر سکتے ہیں۔ ماضی کے دھندلکے اس کے ذہن پر اپنا منظر بنانے لگ گئےسب کچھ اس کے ذہن میں ایک فلم کی طرح چلنےلگا۔ 🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹 یار زری تم میری آواز سن کیوں نہیں رہی تھی۔ پچھلے پانچ منٹس سے میں مسلسل آوازیں لگا رہی ھوں پر تم ہو کے کانوں میں یہ ٹھوس کے بیٹھی ہو۔ اسما کافی تپی ہوئی تھی۔
حق ہا۔ زری نے ٹھنڈی آہیں بھرتے بولا۔۔ اسما میری بات سنو! ایک تو تم بے تکا بولی جاتی ہو کام کوئی ہوتا نئی خامخاہ ادھر ادھر کی ہانکتی رہتی ہو۔ زری نے کافی تسلی سے کانوں سے ہینڈفری نکالتے ہوے کہا۔
کیا۔۔۔۔ اسما کےایک بار زری کے ان الفاظ نے اچھے خاصے تبق روشن کر دے تھے . وہ ایک دم چیخ اٹھی۔ کیا بکواس کر رھی ہو۔۔ میں۔ ۔۔ یعنی میں۔ ۔ میں ہانکتی ھوں۔ میں تمھے گدھی دیکھتی ھوں کیا۔
نہیں۔ زری نے کافی معصومیت سے سر کو نفی میں ہلایا۔۔ اور چہرے پے بلا کی معصومیت لیے دھیرے سے بولی۔
دیکھتی نئی بلکے ہو۔ زری نے یہ کہتے ہی ڈیپارٹمنٹ کی۔ جانب دوڑ لگا دی۔ زری۔ زری کی بچی ایک بار ہاتھ لگ تو میرے۔ وہ حشر کروں گی عمر بھر یاد رکھو گی۔ بتمیز نے سیدھا ہی گدھی بنا ڈالا۔ اسما کو زری پے بھت غصہ آچکا تھا۔ پر زری وہ تو اپنا کام کر کے بھآگ گئی تھی۔ 🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹 زرش کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے ہے۔ وحید زری کی والد کا اپنا ڈیپارٹمنٹل اسٹور ہے۔ آمدنی کافی اچھی ہے گھر کا خرچ بہت آسانی سے نکل اتا۔ زری کی ایک اور بہن زویا جو اس سے بڑی ہے کافی نکچڑی سی ہے۔ اپنی۔ ذات سے مطلب رکھنے والی۔ اور زری اس کی بلکل براعکس ہے۔ انتہائی تحمل اور خاموش رہنے والی لڑکی کسی کی ذات سے اسے کوئی غرض نی۔ بس خود ہی میں مگن رہتی۔۔ زری کا ایک ہی بھائی سبحان جو کی اس سے چھوٹا ہے۔ گھر میں حلچل نام کی کوئی چیز نہیں۔ سب اپنے اپنے کم سے غرض رکھتے ہیں۔ شائد اسی لیے ان بہن بھائی میں بہت دوریاں موجود رہی ہیں۔ زری یونیورسٹی کی طالبہ ہے۔ ماسٹر ان بزنس اڈمنسٹریشن کے پہلے سمیسٹر میں کلاس کی لائق سٹوڈنٹس میں شمار کی جاتی ہے۔ زری کی زندگی کا تلخ پہلو اسی یونیورسٹی سے جڑا ہے۔ وہ جانے انجانے میں بھی اس دلدل میں پھستی چلی گئی۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹 یار رکو۔۔ پلیز میں اور زیادہ نہیں چل سکتی۔ پلیز۔ ہا۔۔ ہاا۔۔ ااہ۔ رکو یار۔ وہ ہانپتے ہوئے کہے جارہی تھی۔ مگر مخاطب کو تو جیسے سنائی ہی نہیں دے رہا تھا۔ پلیز آپ کو خدا کا واسطہ رک جائے۔ وہ اب بھاگ رہی تھی اسکے پیچھے مگر وہ تو جیسے بجلی کی سی رفتار پکڑے ہوئے تھا۔ اچانک سے ہی اسے ٹھوکر لگی اور وہ منہ کے بل گری۔ ایک لمحے کو اگے بڑھتا ہوا وہ انسان رکا پلٹ کر اسکی جانب دیکھا۔ اسکے ماتھے سے نکلتا وہ سرخ خون اسکے دل کو کچھ ہونے لگا۔ مگر وہ تو پتھر تھا پتھر بھی کبھی احساس رکھتے ہیں۔ رکیے پلیز۔ ایک بار میری بات سن لیں۔ اب وہ تڑپ کر بولی۔ اچانک ہی کہیں اسے اذان کی آواز سنائی دی۔ آہ۔ ہ۔ہ ۔۔۔ اوہ۔۔ زری نے اٹھ کر ادھر اُدھر دیکھا۔ اوہ خدا۔۔۔ یہ سب خواب تھا۔ اوہ۔ شکر ہے اللّه کا۔ کس قدر بھیانک خواب تھا۔ گ وہ اٹھی وضو کیا اور فجر کیلئے جائے نماز پر کھڑی ہوگئی۔۔ دوپہر کا وقت تھا زری الگ سے روم میں بیٹھی اپنا پیپر تیار کر رہی تھی۔ یونیورسٹی میں مڈز شروع ہوگئے تھے۔ اسکا پہلا پہلا امتحان تھا۔ اسلئے وہ کافی حد تک پریشان بھی تھی۔ زری۔۔ زری بیٹا۔ ذرا جا کر کچن میں کچھ برتن پڑے ہیں وہ تو دھو آؤ۔ زرش کی والدہ ندرت بیگم نے دوسرے کمرے سے آواز لگائی۔ پر امی۔۔ میرا صبح پیپر ہے آپ پلیز زویا کو بول دیں کہ وہ دھو دے۔۔
کیوں میں کیوں دھووں۔ ابھی تو موبائل میں گھس کر بیٹھی تھی اور اب کام کے وقت پڑھائی یاد آگئی ہے۔ زویا نے تڑخ کر جواب دیا۔ زری الجھ کر رہ گئی۔ کیوں کہ وہ تو موبائل سے کچھ ڈاکیومینٹ دیکھ رہی تھی۔ یہاں پر تو مطلب ہی اور نکالا گیا۔ آخر وہ ضبط کرتی اٹھ گئی۔ پتہ نہیں کیسی بہن ہے یہ۔ لوگوں کی تو اتنی اچھی بہنیں ہیں اور یہ ہے کہ جب دیکھو طنز کرتی ہے۔زری برتن دھونے کے ساتھ دماغ میں الگ ہی تانے بانے میں الجھ کر رہ گئی کیا سچ میں ایسا ہے یا میرا وہم ہے۔ یہ میری ہر بات کا مطلب غلط کیوں لیتی ہے۔ جب سے یونی جانے لگی ہوں تب سے تو کچھ زیادہ ہی ہوگیا۔ یا اللّه میری مدد فرما۔ مجھےصبر دے۔ 🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹 پیپر کے بعد ڈیپارٹمنٹ کے لان میں وہ دونوں بیٹھی پیپر کے حوالے سے ڈسکشن کررہی تھی۔ اسما۔۔ مجھے لگتا میرے سے نہیں ہوگا۔ اتنا عجیب اور مشکل پیپر تھا سمجھ سے باہر ہوگیا۔ زری نے کافی بجھے دل کے ساتھ کہا۔ ارے یار کرلو گی تم مجھے یقین ہے۔ اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ پریشانی کی بات ہے نا۔ میرے مارکس میری پوزیشن زرا سی بھی ادھر ادھر ہوئی تو میری گھر سے بہت انسلٹ ہوگی۔ اوہو۔۔۔ یار تمہارے گھر والوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ ہر بار پوزیشن باہر بوکے لے کر نہیں کھڑی ہوئی ہوتی۔ اسما نے زری کو تسلی دی۔ ہممم۔۔ تم میری جگہ نہی نا۔۔ ورنہ سمجھ آتی۔ خیر چھوڑو کوئی اور بات کرو۔ یہ تم کیا فون میں گھس کر بیٹھی ہو۔۔ کب سے دیکھ رہی ہوں۔ ۔۔ زری نے اسما سے سیل کھینچ لیا۔ یاااااارررررر۔۔ پلیز ابھی دے دو واپس۔۔ تم فیس بک نہیں یوز کرتی۔؟؟ کرتی ہوں پر کوئی خاص نہیں۔ کیوں۔۔۔؟ کیونکہ میں یوز کرتی ہوں۔ اسما نے زری کو آنکھ مارتے کہا۔ لو۔۔۔۔ اس میں کیا خاص بات تھی۔ ہاہا تمہیں کیا پتا خاص کیا۔۔ جاو چھوٹے بچوں کے کام کی بات نہیں ہے۔ اسما اپنا موبائل لے کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اچھا میں جارہی ہوں بھائی آگیا لینے۔ ٹھیک ہے۔۔ زری نے بھی اپنی چیزوں کو سنبھالا اور یونیورسٹی کے مین گیٹ کی جانب چل دی۔ 🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

   0
0 Comments